Thursday, November 1, 2012

اُن کے اشکوں کو کہاں تک گریۂ شبنم کہیں


اُن کے اشکوں کو کہاں تک گریۂ شبنم کہیں
آؤ معیارِ نظر بدلیں فسانے کم کہیں
ہے کفِ موجِ صبا میں تارِ دامانِ حیات
اہلِ دِل اِس کو میری تقدیر کا پرچم کہیں
ریشمی کِرنوں میں لپٹا ہو بدن تقدیس کا
چاندنی پھیلے تو ہم افسانۂ مریم کہیں
دِل کے پیمانے میں رقصاں ہے سمندر کا مزاج
ہم اِسے اپنی زباں میں کیوں نہ جامِ جم کہیں
دِل یہ کہتا ہے مآلِ موسمِ گُل دیکھ کر
ہر خوشی کی بزم کو ہم حلقۂ ماتم کہیں
نکہتوں کے شہر میں جائیں تو اربابِ نظر
زخم کو عکسِ رُخِ گُل اشک کو شبنم کہیں
استعاروں ہی سے قائم ہے بھرم ہر چیز کا
موجِ صہبا کو لہو اور انگبیں کو سم کہیں
ہر نئی لغزش کو دیتے ہیں نیا عنوان ہم
زندگی! کب تک تیری تحریر کو مبہم کہیں
اب نہ اُس کی یاد ہے محسنؔ نہ لمحوں کا فریب
زیست کی اِس کشمکش کو کونسا عالم کہیں

No comments: