ہتھیلی پر لیے دل عشق کے بازار میں آئے
ہم اک ٹوٹا کھلونا بیچنے بے کار میں آئے
بہت انمول تھے جذبے دلوں میں قید تھے جب تک
بہت ہلکے ہوئے جب پیکرِ اظہار میں آئے
سبھی نے ہم کو سمجھایا قدم مت عشق میں رکھنا
مگر ہم بے دھڑک اس وادی ِ پر خار میں آئے
ہوا جب سامنا تیرا تو سب ُسدھ بدُھ گئی اپنی
بہت پندار میں تھے جب تری سرکار میں آئے
بہت محدود ہیں سوچیں سو تُجھ کو پا نہیں سکتیں
تو لا محدود ہے کیسے مرے افکار میں آئے
مری دیوا نگی کو صرف وہ انسان سمجھے گا
ڈبو کر کشتیاں جو عشق کی منجدھار میں آئے
میں پابندِ سلاسل ہوں ، مری روح رقصِ پیہم میں
انا الحق کی صدا اس رقص کی جھنکار میں آئے
محبت مُشک کی صورت چھپائے سے نہیں چھپتی
عمل بن کر کبھی مہکے کبھی گفتار میں آئے
مرے خالق کا کوئی فعل بے مقصد نہیں ہوتا
کوئی حکمت تو ہو گی ہم جو اس سنسار میں آئے
جو دنیا کی نگاہوں میں خسارہ ہی خسارہ ہے
مرے دل کو مزہ اس ایک کارو بار میں آئے
انا کی آہنی بیڑی کو توڑا ایک جھٹکے سے
دھمالیں ڈالتے پھر ہم ترے دربار میں آئے
تری خواہش نے میری روح میں ہلچل مچا دی ہے
کہ پیہم زلزلہ سا اک در و دیوار میں آئے
بہت سے ذائقے کڑوے کسیلے مجھکو چکھنے ہیں
عجب کیا چاشنی آخر مرے اشعار میں آئے
یہ ہر آئے گئے سے تیرے قصے چھیڑ دیتا ہے
دلِ ناداں کو کتنا لطف ذکرِ یار میں آئے
ہماری چپقلش میں اک مزہ مخفی ہے جو دائم
مجھے اقرار میں آئے تجھے انکار میں آئے
محبت کے تری طوق و سلاسل جب سے پہنے ہیں
مجھے ساتوں سُروں کا لطف اس جھنکار میں آئے
خوشی کے دن بھی اپنے دل کی ویرانی کچھ ایسی ہے
ہوں جیسے ہم غریبوں کے کسی تہوار میں آئے
اگر میں کھل کے رو پاؤں تو شائد وحشتیں کم ہوں
دُھلیں یہ تلخیاں ، نرمی مری گفتار میں آئے
امنگوں کی جگہ اب حسرتوں کی دھول اڑتی ہے
میں اک خواہش ہوں ایسی جو دلِ نادار میں آئے
یہاں سے کوئی کوئی جاں سلامت لے کے جاتا ہے
ہمیں تھے سر پھرے ، اس وادیِ دشوار میں آئے
جنونِ عشق ہے یہ یا کہ ہے سودائی پن اپنا
مزہ اس دل کو اس کی جیت اپنی ہار میں آئے
جسے اُجڑے مکاں ویراں کھنڈر عرؔشی لبھاتے ہوں
وہ آئے شوق سے میرے دلِ مسمار میں آئے