Dream Passion and Colors
Friday, May 2, 2014
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
Thursday, April 10, 2014
اور جب زمین پھٹ پڑے گی۔-
اور جب زمین پھٹ پڑے گی۔۔۔
--------------------------
پہلے خانے سے آخری خانے تک اس نے ساری کتابیں دیکھ ڈالیں اسے قرآن پاک نہیں ملا تھا،وہ چھوٹے بچوں کی طرح ہچکیاں لیتے ہوئے تیسری الماری کی تلاشی لینے لگی وہ کتابوں کو دھندلائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ کر فرش پر اچھال دیتی اس نے ساری الماری خالی کر ڈالی اسکی پشت پر کتابوں کا انبار لگا تھا اسکے ہاتھ پاؤں اور چہرہ گرد سے اٹ گئے تھے اسکے بالوں میں کاغذ کے بےشمار پرزے اٹکے ہوئے ہوئے تھے اب صرف ایک الماری بچی تھی۔
“اگر اس میں بھی الله کی کتاب نہ ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اسے لگا وہ مر جائے گی لرزتے ہاتھوں سے پانچویں الماری کے پٹ کھولے اب وہ کتابوں کو نہایت آہستگی اور سست روی سے دیکھ رہی تھی تیسرے خانے کی پہلی کتاب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے اپنا سانس تک روک رکھا تھا وہ قرآن پاک تھا۔۔۔۔ گرد جمے اوراق کو بےتحاشا چومتے ہوئے وہ عین بلب کے نیچے بیٹھ گئی تھی اسے عربی پڑھنا نہیں آتی تھی بچپن میں محض ایک دفعہ قرآن پاک پڑھا تھا مگر اسکے بعد کبھی کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا اس نے جلتی آنکھوں سے حروف کو شناخت کرنے کی کوشش کی اور ہجے کر کے اٹک اٹک کر پڑھنے لگی اسکی ہچکی بندھ گئی تھی سطروں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اسکے گدلے آنسو اوراق میں جذب ہو رہے تھے۔ آیتوں کے نیچے نہایت باریک لکھائی میں ترجمہ لکھا تھا اسنے گیلی گدلی آنکھوں کو زور سے رگڑ ڈالا اور جھک کر باریک حروف کو اونچی آواز میں پڑھنے لگی۔
“جب زمین پھٹ پڑے اور تارے جھڑ پڑیں اور جب سمندر بہادیے جائیں اور جب قبریں کریدی جائیں تو ہر جان جان لے گی جو اس نے آگے بھیجا اور جو پیچھے اے آدمی، تجھے کس چیز نے فریب دیا، اپنے کرم والے رب سے۔۔۔“ آنسوؤں کے گولے نے اس کی آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا آنکھوں میں تنی مٹیالی دھندھ کی چادر نے اس کی بینائی چھین لی تھی۔
“ تجھے کس چیز نے فریب دیا، اپنے کرم والے رب سے جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا۔۔“ اسے کند چھری سے زبح کیا جا رہا تھا درد کی شدت اسکی برداشت سے باہر تھی۔
“ جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا، پھر ہموار فرمایا جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا۔۔۔“ وہ قرآن کو سینے سے بھینچ کر چلانے لگی اس کا پورا وجود ایک ٹیس بن گیا تھا،ہر مسام سے آنسو ابل رہے تھے ساری رات وہ روتی رہی تھی قرآن کو سینے سے لگائے کمرے کے طول و عرض میں بھٹکتی رہی تھی۔۔
(بشریٰ سعید کے ناول ’’رقصِ جنوں‘‘ سے اقتباس)
--------------------------
پہلے خانے سے آخری خانے تک اس نے ساری کتابیں دیکھ ڈالیں اسے قرآن پاک نہیں ملا تھا،وہ چھوٹے بچوں کی طرح ہچکیاں لیتے ہوئے تیسری الماری کی تلاشی لینے لگی وہ کتابوں کو دھندلائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ کر فرش پر اچھال دیتی اس نے ساری الماری خالی کر ڈالی اسکی پشت پر کتابوں کا انبار لگا تھا اسکے ہاتھ پاؤں اور چہرہ گرد سے اٹ گئے تھے اسکے بالوں میں کاغذ کے بےشمار پرزے اٹکے ہوئے ہوئے تھے اب صرف ایک الماری بچی تھی۔
“اگر اس میں بھی الله کی کتاب نہ ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اسے لگا وہ مر جائے گی لرزتے ہاتھوں سے پانچویں الماری کے پٹ کھولے اب وہ کتابوں کو نہایت آہستگی اور سست روی سے دیکھ رہی تھی تیسرے خانے کی پہلی کتاب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے اپنا سانس تک روک رکھا تھا وہ قرآن پاک تھا۔۔۔۔ گرد جمے اوراق کو بےتحاشا چومتے ہوئے وہ عین بلب کے نیچے بیٹھ گئی تھی اسے عربی پڑھنا نہیں آتی تھی بچپن میں محض ایک دفعہ قرآن پاک پڑھا تھا مگر اسکے بعد کبھی کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا اس نے جلتی آنکھوں سے حروف کو شناخت کرنے کی کوشش کی اور ہجے کر کے اٹک اٹک کر پڑھنے لگی اسکی ہچکی بندھ گئی تھی سطروں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اسکے گدلے آنسو اوراق میں جذب ہو رہے تھے۔ آیتوں کے نیچے نہایت باریک لکھائی میں ترجمہ لکھا تھا اسنے گیلی گدلی آنکھوں کو زور سے رگڑ ڈالا اور جھک کر باریک حروف کو اونچی آواز میں پڑھنے لگی۔
“جب زمین پھٹ پڑے اور تارے جھڑ پڑیں اور جب سمندر بہادیے جائیں اور جب قبریں کریدی جائیں تو ہر جان جان لے گی جو اس نے آگے بھیجا اور جو پیچھے اے آدمی، تجھے کس چیز نے فریب دیا، اپنے کرم والے رب سے۔۔۔“ آنسوؤں کے گولے نے اس کی آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا آنکھوں میں تنی مٹیالی دھندھ کی چادر نے اس کی بینائی چھین لی تھی۔
“ تجھے کس چیز نے فریب دیا، اپنے کرم والے رب سے جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا۔۔“ اسے کند چھری سے زبح کیا جا رہا تھا درد کی شدت اسکی برداشت سے باہر تھی۔
“ جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا، پھر ہموار فرمایا جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا۔۔۔“ وہ قرآن کو سینے سے بھینچ کر چلانے لگی اس کا پورا وجود ایک ٹیس بن گیا تھا،ہر مسام سے آنسو ابل رہے تھے ساری رات وہ روتی رہی تھی قرآن کو سینے سے لگائے کمرے کے طول و عرض میں بھٹکتی رہی تھی۔۔
(بشریٰ سعید کے ناول ’’رقصِ جنوں‘‘ سے اقتباس)
Sunday, March 23, 2014
Chor ye baat k milay zakham kahan se mujko..
Chor ye baat k milay zakham kahan se mujko..
"Zindagi bus itna bata k kitna safar baki hy..
"Zindagi bus itna bata k kitna safar baki hy..
Aawargi mei “mohsin” is ko b hunar jana,
Aawargi mei “mohsin” is ko b hunar jana,
Iqrar-e-wafa kerna,phir us se mukar jana,
Jab khwab nahi koi,kya zindagi ka karna,
Har subh ko jee uthna har raat ko mar jana,
Shab bhar k thikane ko ik chatt k siwa kya hy,
Kya waqt pe ghar jana, kya dair se ghar jana,
Aisa na ho darya mei tum baar-e-garaa’n thehro,
Jab log ziada hon kashti se utar jana,
Suqraat k peene se kya mujh pe ayaa’n hota,
Khud zehr piya mei ne tab us ka asar jana,
Jab bhi nazar aao gy hum tum ko pukare’n ge,
Chaho to thehar jana, chaho to guzar jana…
Iqrar-e-wafa kerna,phir us se mukar jana,
Jab khwab nahi koi,kya zindagi ka karna,
Har subh ko jee uthna har raat ko mar jana,
Shab bhar k thikane ko ik chatt k siwa kya hy,
Kya waqt pe ghar jana, kya dair se ghar jana,
Aisa na ho darya mei tum baar-e-garaa’n thehro,
Jab log ziada hon kashti se utar jana,
Suqraat k peene se kya mujh pe ayaa’n hota,
Khud zehr piya mei ne tab us ka asar jana,
Jab bhi nazar aao gy hum tum ko pukare’n ge,
Chaho to thehar jana, chaho to guzar jana…
Wednesday, March 19, 2014
Aabla paa is dasth mein koi ayaa ho ga
Aabla paa is dasth mein koi ayaa ho ga
Warna andhee mein diya kis ney jalaya ho ga
Zarey zarey mein jurrey hon gay kawarey sajdey
Ik ik buth ko khuda uss ney banya ho ga
Pyaas jalthey howey kanthoo'n kee bujhaee ho gee
Risthey paanee ko hatheli pey sajaya ho ga
Mil gaya ho ga agar koi sunehra pathar
Apne thootha howa dil yaad thou aya ho ga
Khoon k cheenthey kahee'n pooch na lein lehroo'n sey
Kis ney weeraney ko gulzaar banaya ho ga !!!!
Warna andhee mein diya kis ney jalaya ho ga
Zarey zarey mein jurrey hon gay kawarey sajdey
Ik ik buth ko khuda uss ney banya ho ga
Pyaas jalthey howey kanthoo'n kee bujhaee ho gee
Risthey paanee ko hatheli pey sajaya ho ga
Mil gaya ho ga agar koi sunehra pathar
Apne thootha howa dil yaad thou aya ho ga
Khoon k cheenthey kahee'n pooch na lein lehroo'n sey
Kis ney weeraney ko gulzaar banaya ho ga !!!!
Subscribe to:
Posts (Atom)